


غنی الرحمن
کھیلوں کے میدان میں شاندار کارکردگی کے تذ کروں کے بغیر پاکستان کی62 سالہ تاریخ نامکمل ہے سکواش کو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا پہلا تعارف کہا جاتا ہے اور ہاکی قومی کھیل کی شکل میں ہمیشہ اپنی موجودگی کا پتہ دیتی رہی ہے۔کرکٹ کے بار ے میں یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ یہ پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے دلوں کے قریب ہے۔ ان مےں سنوکر وہ چوتھا کھیل ہے جس میں پاکستان عالمی فاتح بھی بنا۔پاکستان ہاکی ٹےم نے تین اولمپکس اور چار ورلڈ کپ ٹائٹلز جیتے ہیں۔1960 کے روم اولمپکس میں نصیر بندہ کے گول کی بدولت گولڈ میڈل جیت کر پاکستان نے ہاکی کے میدان میں بھارت کی طویل بالادستی ختم کی۔اس وقت مےں عبدالحمید حمیدی پاکستان کی اس اولین فاتح ٹیم کے کپتان تھے۔1968کے میکسیکو اولمپکس میں طارق عزیز کی قیادت میں پاکستانی ٹیم ایک بار پھر وکٹری سٹینڈ پر آئی۔اوراسی طرح1984میں منظور جونیئر کی قیادت میں پاکستان نے تیسری مرتبہ اولمپک گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔
1971ءمیں پہلی مرتبہ ہاکی ورلڈ کپ کومتعارف کرایا گیا تو جیت کا پہلا مزہ بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے خالد محمود کی قیادت میں چکھا۔ 1978 میں اصلاح الدین اور1982 میں اختر رسول کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم کا جادو ایک بار پھر سر چڑھ کر بولا اور پھر 12 سال کی اتار چڑھاو¿ والی کارکردگی کے بعد 1994 میں شہباز احمد کی قیادت میں پاکستانی ہاکی ٹیم ایک بار پھر ورلڈ چیمپئن بن گئی۔ان 7 بڑی فتوحات کے علاوہ بھی پاکستان نے ہاکی کے میدان میں کئی دیگر اہم مقابلے بھی جیتے ہیں جن میں جونیئر عالمی کپ، چیمپئنز ٹرافی اورایشین گیمز قابل ذکر ہیںانفرادی کارکردگی کے لحاظ سے شہباز احمد، اصلاح الدین، سمیع اللہ، حسن سردار، حنیف خان، شہناز شیخ، رشید جونیئر، منظور حسین عاطف، عبدالوحید، منظور جونیئر، منورالزمان، کامران اشرف اور سہیل عباس جیسے کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی نمایاں نظر آتی ہے۔ہاکی کی طرح اگرچہ کرکٹ میں پاکستان ایک سے زائد بار عالمی چیمپئن نہیں بن سکا ہے لیکن ٹیسٹ اور ایک روزہ میچوں کی کئی یادگار فتوحات اور کھلاڑیوں کے انفرادی سنگ میل اور عالمی ریکارڈز کی وجہ سے پاکستان میں بھی کرکٹ ایک کھیل نہیں بلکہ جذباتی وابستگی اور جنونی کیفیت کا نام ہے جس کا احاطہ کرنا چند سطروں یا صفحات میں ممکن نہیں۔
1992 ءکے ورلڈ کپ کی جیت کو پاکستانی کرکٹ کا نقہ عروج کہا جاتا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں محدود اوورز کا عالمی چیمپئن بننا اس وقت خواب نظر آ رہا تھا جو کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی کے سبب حقیقت کا روپ اختیار کرگیا۔جہاں تک ٹیسٹ کرکٹ کا تعلق ہے تو اوول، لارڈز، بنگلور، سڈنی اور ان جیسی کئی دوسری فتوحات پاکستانی کرکٹ کی حسین یادوں کے طور پر ذہنوں میں محفوظ ہوچکی ہیں۔ایک روزہ کرکٹ میں وسیم اکرم، شاہد آفریدی اور سعید انور ریکارڈ ساز کرکٹرز کے طور پر دکھائی دیتے ہیں تو ٹیسٹ کرکٹ میں فضل محمود، حنیف محمد، عمران خان، جاوید میانداد اور انضمام الحق ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔ سکواش میں ہاشم خان نے جس شاندار روایت کی ابتداءکی اسے ان کے بعد آنے والوں نے پروان چڑھایا لیکن دنیائے سکواش میں جس کھلاڑی کی عظمت کے گن اپنے ہی نہیں غیر بھی گاتے ہیں وہ جہانگیرخان ہیں جنہوں نے اس کھیل کو نہ صرف نئے معنی دیے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا تعارف ان کی ذات کے ذریعے کرایا جاتا رہا۔جہانگیرخان ساڑھے پانچ سال سکواش کورٹ میں ناقابل شکست رہے۔ انہوں نے 10 برٹش اوپن مسلسل جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کے جیتے گئے ورلڈ اوپن ٹائٹل کی تعداد6 تھی اورریٹائرمنٹ کے بعد آج بھی ان کی شخصیت کا سحر قائم ہے۔
اسی طرح بین الاقوامی سطح پر سنوکر میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شرکت مستقل لیکن کارکردگی محدود رہی ہے تاہم اس محدود کارکردگی میںبھی پاکستان کے محمد یوسف اس لئے سب سے منفرد نظر آتے ہیں کہ وہ واحد پاکستانی کیوسٹ ہیں جنہوں نے امیچر سنوکر کا عالمی اعزاز جیتا ہے۔ انہوں نے یہ کامیابی 1994ءمیں جنوبی افریقہ میں منعقدہ ورلڈسنوکر چیمپئن شپ میں حاصل کی تھی۔محمد یوسف ایشین سنوکر چیمپئن بننے والے بھی پہلے اور اب تک واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں۔جبکہ ان چار کھیلوں کے علاوہ اتھلےٹکس میںبھی پاکستان 50 اور 60 کے عشرے میں ایک بڑی قوت کے طور پر موجود تھا جبکہ ریسلنگ میں بھی اسی دور میں پاکستان نے اہم کامیابیاں حاصل کیں۔باکسنگ، کشتی رانی، ٹیبل ٹینس، ویٹ لفٹنگ، ٹینس ، بیڈمنٹن اورباڈی بلڈنگ میں پاکستان ایشیائی سطح پر اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہا ہے۔شاندار کامیابیوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد پاکستان سپورٹس اس وقت اتار چڑھاو¿ کا شکار ہے۔ اورپچھلے ایک عشرے سے کوئی بھی عالمی اعزاز پاکستان کے پاس نہیں ہے کچھ لوگ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جنہیں کھیل سنبھالنے کے لئے دیے گئے تھے وہ کھیلنے لگ گئے۔اگر دیکھا جائے کہ جس طرح سابقہ ادوار میں فیڈریشنز ایسوسی ایشنز اور کھلاڑیوںنے نامساعد حالات اور مشکل دور میں پاکستان کا سبزہلالی پر چم دنیا بھر کے کھیلوں کے میدانوں میںمتعارف کرانے مےں اپنا اہم کردار اداکیا تھا اور ملک کو جن اعزازات سے نوازا تھابدقسمتی سے اس جدید دوراوربنیادی سہولیات کی موجود گی کے باوجود ہم سے وہ تمام اعزازات چھن لئے گئے ۔

No comments:
Post a Comment