غنی الرحمن
کہتے ہیں کھیل امن اور محبت کے جذبوں کو پروان چڑھاتے ہیں اسی لئے کھلاڑی کو امن کا سفیربھی کہاجا تا ہے کھیلوں میں حصہ لینے سے نہ صرف نوجوان نسل کو ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست رکھا جا سکتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کیلئے ایک تفریح کے بہترمواقع میسر آتے ہیںاور اسی بناء پردنیا بھر میںکرکٹ ،ہاکی،فٹ بال،والی بال،ٹیبل ٹینس،سکواش ،لان ٹینس،سوئمنگ اور اتھلیٹکس سمیت لا تعداد ایسی گیمز ہیں جو باقاعدگی کے ساتھ منعقد کئے جاتے ہیںجس کی وجہ سے معاشرے پر بہتر اثرات مرتب ہو تے ہیں۔دوسری ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کھیلوں پر خصوصی توجہ دی جار ہی ہے جس کے باعث دیگر صوبوں کی طرح پشاور میں بھی کھیلوں کے میدانوںکی شدید کمی کے باوجود بھی ہمارے نوجوانوں نے اپنی شاندار پر فارمنس کی بدولت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ملک وقوم کا نام روشن کیا ہے جنہیں آج بھی لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔لیکن سرکاری سطح پر ہمارے ان سپوتوں کی اس طریقے سے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی جسطرح دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کی عزت وحوصلہ افزائی کی جاتی ہے یہی وجہ ہے ان ممالک نے کھیلوں میں بے پناہ ترقی کرلی ہے وہاں کھیلوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ نواجون نسل غلط سرگرمیوں کی بجائے مثبت سرگرمیوں یعنی کھیلوں کی جانب راغب ہو گئے ہیں
لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہمارے ملک میں بے پناہ ٹیلنٹ کی موجودگی کے باجود بھی نوجوان نسل کو وہ مواقع میسر نہیںجو کہ ہو نے چاہئے اگر دیکھا جائے توصوبائی دارالحکومت سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں گزشتہ ادوار میں کھیلوں کے جو میدان تھے وہ کم ضرور تھے لیکن سرکاری اداروں اور ایسوسی ایشنوں اورآرگنائزروں کی کاوشوں سے ہمارے کھلاڑیوںنے دنیا بھر میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔اور جوں جوں سہولیات آگئیں تو ہمارے ہاتھوں سے تمام ٹائٹل چھن گئے ۔اور اسی طرح ہماری غفلت کے باعث کھیلوں کے میدان ویران ہو گئے اور ایک دو مقامات پر سال میں ایک مرتبہ کھیلوں کا میلہ لگ بھی جاتا ہے تاہم میلہ ختم ہو تے ہی معاملہ رفع دفعہ ہو جا تا ہے اورکھیلوں کے میدانوںپر ایک لمبی خاموشی چھا جاتی ہے اور اسی غفلت اور لاپرواہی کے باعث ہماری نوجوان نسل کھیلوں سے بہت دور جاکر عسکریت پسندی اور دیگر غلط کاموں میں مشغول ہوگئی ہے حکومت اور ذمہ دار افراد نے ان وجوہات پر شروع میں کسی قسم کی توجہ نہیں دی جسکے باعث حالات بگڑ گئے ہیں اورنوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب ملک کو ہر طرف عسکریت پسندی اور دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میںلے لیاہے جبکہ اب تو حکومت اور دہشت گردوں کے مابین جنگ شروع ہو گئی ہے
اور اس جنگ میںپشاور ایک فرنٹ لائن کا کردار دا کر رہا ہے کھیلوں کے نہ ہو نے کے باعث پشاور سمیت ،سوات ،باجوڑ ایجنسی ،مہمند ایجنسی اورخیبرایجنسی سمیت مختلف علاقے انتہا پسندی کی زد میں آگئے ہیںاور اسی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی صورت میں سوات ،باجوڑ ایجنسی اور مہمند ایجنسی سے نہ صرف لاکھوں خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر جان بچانے کی خاطرپشاور ،چارسدہ ،نوشہرہ ،صوابی ،مردان اور کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں پناہ لینے کی غرض سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو ئے ہیں جبکہ سوات ،مہمندایجنسی اور باجوڑ ایجنسی میں ایک بڑی تعداد میں مر د وخواتین و بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔اورسیکورٹی فورسز نے کافی جدوجہد کے بعد سوات سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن میں حالات کو قابوکرتے ہوئے علاقے میںحالات کنٹرول کرکے کچھ حد تک امن وامان بر قرار رکھاہوا ہے تاہم بعض افراد کا کہناہے کہ علاقے میںاب بھی عسکریت پسندو ںکا مکمل خاتمہ نہیں ہو اہے ملاکنڈ دویژن میں امن قائم ہوتے ہی وہاں سے نقل مکانی کرنے والے خاندان خوشی خوشی کے ساتھ ساپنے گھروں کو واپس روانہ ہو گئے ہیںاورحکومت کو اب کھیلوں کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے مقامی لوگوں کو ایک بار پھر تفریح کے مواقع کی فراہمی نکالنے اورحالات معمول پر لانے کی غرض سے جشن آزادی کے پر مسرت موقع پر14اگست کومینگورہ شہر میں واقع فٹ بال گرائونڈ میں فٹ بال میچ کا انعقاد کیا اور اسکے علاوہ14اگست کی مناسبت سے جشن آزادی کی تقریبات کوصوبائی دارالحکومت پشاور کی بجائے سوات منتقل کرکے وہاں ہر رنگارنگ پروگرامز ترتیب دیئے ہیں حکومت نے اس کے علاوہ سوات سمیت پورے صوبے میں کھیلوں پر خصوصی توجہ دینے کا پروگرام تیارکرلیا ہے جو ایک خوش آئند فیصلہ ہے دیر آئید درست آئید اب بھی اگر بھی اگر ملک بھر سمیت صوبہ سر حد میں کھیلوںکے فروغ کیلئے اقدمات نہ کئے گئے اور نواجوانوں کوانتہاپسندی اور دیگر غلط سرگرمیوں سے کھیلوں کی جانب راغب نہ کیا گیا تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیںکھیلوں اور دیگر شخصیات کاکہنا ہے کہ شہریوں کو دہشت گردی کے خوف سے نکالنے اور حالت اپنے معمول لانے کیلئے اس وقت پشاور میں کھیلوں کے ایک بڑے ایونٹ کرانے کی شد ضرورت ہے اس سال نومبر میں نیشنل گیمزکو ہر صورت میں پشاور ہی میں منعقد کرانے کیلئے اقدمات کرنے چاہئے ۔تاکہ اسی طرح نہ صرف پشاور بلکہ پورے صوبے میںکھیلوں کے میدان کوایک مرتبہ پھر آباد ہونگے اور عوام کو کھیلوںکے ناطے ایک بہترین اور صحت مندانہ تفریح کے مواقع فراہم کئے جاسکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باجوڑ ایجنسی کے علاقہ چہارمنگ کے گائوں کوٹکی
میں کھیلوں کا میلہ
.......................
پاکستان کا قبائلی علاقہ باجوڑ ایجنسی جوکبھی فاٹا کاسب سے زیادہ پر امن علاقہ تصور کیا جا تا تھا اس علاقے میں ہر وقت کسی نہ کسی مقام پرکرکٹ ،فٹ بال ،والی بال،لان ٹینس اور دیگر کھیلوں کے مقابلے تواتر کے ساتھ منعقد کئے جاتے تھے جس کے باعث نہ صرف مقامی نوجوانوںکو مثبت سرگرمیوں کے مواقع میسر آتے بلکہ وہاں کے لوگوں کیلئے ایک جگہ پر جمع ہوکر بہتر ین تفریح سے لطف اندوز ہو نے کے مواقع بھی ملتے تھے یہی وجہ تھی کہ اس وقت ہر جگہ پرماحول سکون تھا باجوڑ کے صدر مقام خار کے علاوہ تحصیل ناواگئی کے علاقہ چہار منگ کے گائوں ،،کوٹکی،، جہاں پر ہر سال باقاعدگی کے ساتھ جشن بہاراں کی مناسبت سے کر کٹ ٹورنامنٹ منعقد کیا جاتھا اس ٹورنامنٹ کو علاقے میں ایک خاص مقام حاصل تھا ۔اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے اوراسے دیکھنے کی غرض سے نہ صرف ایجنسی کے دوردراز علاقوں سے بلکہ باجوڑ سے تعلق رکھنے والے وہ افرادجو پشاور اور ملک کے دیگر اضلاع میںرہائش پذیر ہیںخاص طور پر انہیں دنوں میں کوٹکی میںمنعقدہ جشن بہاراںکرکٹ ٹورنامنٹ میں لازمی شرکت کیا کرتے تھے اسکے علاوہ ضلع دیر میں بھی جشن گمبراٹ کا انعقاد بھی ہر سال باقاعدگی کے ساتھ کیا جا تھا اس میلے میں کرکٹ ،کبڈی ،والی بال اور فٹ بال سمیت دیگر کھیلوں کے مقابلے منعقد کئے جاتے تھے اس میلے کو موجودہ وفاقی وزیر نجم الدین خان آرگنائزکرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ باجوڑ اور دیر سمیت دیگر مختلف علاقوں میںاس قسم صحت مندانہ تفریحی سرگرمیوں کا کاتمہ ہو ااور لوگ ان سرگرمیوں کے بجائے پیسہ کمانے کے چکر میںدوسرے راستے استعمال کرنا شروع کردیئے جس کے باعث چوری ،ڈکیتی،ڈاکہ زنی،اغواء برائے تاوان سمیت عسکریت پسندی اور دہشت گردی جیسے مسائل نے جنم لیا اور اس قسم کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہاہے ۔