Wednesday, September 8, 2010

ملک میں کھیلوں کے فروغ کیلئے حالیہ سیلاب میں متاثرہ کھلاڑیوں کی دادرسی کی اشد ضرورت


غنی الرحمن
خیبر پختونخواسے لیکر وادی مہران تک حالیہ سیلاب نے وطن عزیز میں جوتباہی مچائی ہے پاکستان کی 63 سالہ تاریخ میں اس طرح کی تباہی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی المیے کی مثال تو شاید ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی لیکن یہ بات بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ بحیثیت قوم ہم نہ تو پہلی دفعہ کسی بڑی آزمائش سے دو چار ہوئے ہیں او ر نہ ہی یہ کوئی پہلا بحران ہے جس کامقابلہ ہمیں کرناپڑرہاہے۔ ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بحیثیت اے قوم ہم نے موجودہ بحران سے زیادہ سخت نامساعد حالات کا نہ صرف مقابلہ کیا ہے بلکہ آزمائش کی ہر گھڑی میں کامیابی سے بھی ہمکنار ہوتے رہے ہیں۔مہنگائی ،بے روزگاری،دہشت گردی بم دھماکہ اغواء برائے تاوان سمیت کئی دیگرمسائل بھی ہیں ۔کبھی دہشت گردوںکے خلاف آپریشن کے باعث لوگ اپنے گھربار کو چھوڑ کر نقل مکانی کررہے ہیں تو کبھی سیلاب سے بچنے کی غرض سے گھروں کو الواع کہہ کر کسی دوسری جگہ کھولے اسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔اس قیامت کے باعث جہاں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہو ئے ہیں وہاں کھیل اور کھلاڑیوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا ہے اور اس سلسلے میںحکومت ،پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ، کھیلوں کی فیڈریشنز اورکھیلوں کی صوبائی ایسوسی ایشنز سمیت کسی کو بھی فکر لاحق نہیں ۔ہمارے ملک میں غربت تو زیادہ ہیں لیکن اکثر کھلاڑی انتہائی غریب اور لاچار ہیں اور اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ میںنے سیلاب متاثرین کے کیمپ گیاتھاتو وہاں پر امداد کیلئے کئی سینکڑوںمردوں سمیت ایک بڑی تعداد میںخواتین بھی آئیں ہوئیں تھیں ۔تو اس دوران میں نے دیکھا کہ ایک لڑکی ہاتھوں میں دوتین روٹی لئے رش سے تھوڑے فاصلے پر انتہائی افسردہ کھڑی تھی ۔جب میری نظر اس پر پڑی تو میںان کے پاس گیااور میرے پوچھنے پر انہوں نے کہاکہ ہماری قوم کتنی بدقسمت ہے کہ ایک امتحان ختم ہوتی ہے تو اس سے سخت دوسرا امتحان شروع ہوتاہے ۔زندگی گزارنے کیلئے کھانے پینے اور دیگر اشیاء تو ضروری ہے لیکن امدادی سامان کی تقسیم کے دوران لوٹ مار کرنا اور ایک دوسرے سے مشت وگریباں ہونا سراسرناانصافی ہے ۔ کیونکہ ایک ایسا کھیل ہے جسمیں حصہ لینامیری بس کی بات نہیںہے اسلئے میںدور کھڑی ہو ں۔میں مارشل آرٹس کی کھلاڑی ہوں لیکن امدادحاصل کرنابھی ہر کھلاڑی کا کا م نہیں کیونکہ پختون کے اس معاشرے میں مرد وخواتین کا خیال رکھنے کارواج دم توڑ گیا ہے ۔انکاگھر باراور اس میں قیمتی گھریلوں سامان سب کچھ سیلاب میں بہہ گئے اب ہم بے یارومددگار پڑے ہیں۔جبکہ کھانے پینے وصول کرنے کایہ کھیل بھی خطرناک ہے ۔انہوںنے اپنا فرضی نام سعدیہ ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ پہلے تو ہم ایک سرکاری سکول میں رہائش پذیر تھے لیکن اب سکول کے بجائے ایک چھوٹے اور کچے مکان کرائے پر لیاہے ۔میں نے کہاکہ کراٹے ، اولمپک ایسوسی ایشن اور حکومت نے آپ کو امداد فراہم نہیںکی ہے تو ان کا جواب تھا کہ زمین وہ گرم ہوتی ہے جہاںپر آگ لگی ہو۔یہ قیامت ہم پر آئی ہے دوسروں کو کیا معلوم۔ میں تو سوچتی ہوں کہ صرف کھلاڑی ہی نہیں بلکہ ڈاکٹرز،انجینئرز،وکلاء ،سرکاری ملازم سمیت ہر مکتبہ فکر کے کوگ شدیدمتاثر ہوچکے ہیں۔ کھیلوں کی ایسوسی ایشنز سمیت تمام شعبوںکے ایسوسی ایشنزکے عہدیداروں کو چاہئے کہ اپنے متاثرہ اراکین کا دل کھول کر مدد کرے تاکہ اسی طرح ان تمام متاثرہ خامدانوں کو بروقت، بہتر اور باعزت طریقے سے ان کی دہلیز پر مددفراہم کی جاسکے ۔خاتون کھلاڑی نے کہاکہ انہیں صرف اپنے کراٹے ایسوسی ایشن کے سیکرٹری منصور احمد نے صرف مجھے نہیں بلکہ رسالپور اور نوشہرہ کے دیگر متاثرہ کھلاڑیوں کی مدد کی ہے ،لیکن اولمپک ایسوسی ایشن اور صوبائی حکومت نے انہیں کسی قسم کی دادرسی نہیں کی ہے۔چاہئے تو یہ تھا کہ کھیلوںکی تمام صوبائی ایسوسی ایشنز پشاورسمیت دیگر ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشنزسے متاثرہ کھلاڑیوں کی تفصیلات اکٹھاکرکے ان کھلاڑیوں کو پشاورسپورٹس کمپلیکس سمیت صوبے کے مختلف سپورٹس کمپلیکس کے ہاسٹلوں میںرہنے کی اجازت دیتے اور اس کے بعدپاکستان اور صوبائی اولمپک ایسوسی ایشن انکی دوبارہ بحالی کیلئے رابطہ کرتے لیکن دو ماہ گزرنے اور عید الفطر آنے کے باوجود بھی کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی ،جسکے باعث کھلاڑیوں کو شدید مایوسی ہو ئی ہے ۔ سعدیہ نے مزید بتایا کہ رمضان المبارک توخیر سے گزر گیا لیکن اب عید کی خوشیاں امسال انہیں نصیب نہیں ہو ئی کیونکہ اب تو ہم بے یاروودمددگار رہ گئے ،پرائے تو کیا اپنوں نے بھی منہ موڑ لیا ہے عید وہ لوگ منائیںگے جن کا کوئی غم نہ ہو اب ہماری زندگی اور کیا عید ہو گی کیونکہ والدین محنت کی کمائی سے جو گھر بنایاتھا وہی واحد اثاثہ پانی میں بہہ گیاہے اب کوئی ہمارے ہاں آئیںگے ۔یہ صرف اس کم عمر خاتون کھلاڑی کا مسلہ نہیں بلکہ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخواکے علاوہ ملک بھر کے تمام کھلاڑیوں کی اس مصیبت کے وقت میں مدد کرنی چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ایسانہیں کیا گیا۔جسکے باعث کھلاڑیوں کو سخت مایوسی ہو ئی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوامیں سینکڑوں کھلاڑی بارش اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ۔جن میں سب سے زیادہ والی بال کے کھلاڑی شامل ہیں۔والی بال کھیل سے تعلق رکھنے محب بانڈہ کے رہائشی باصلاحیت کھلاڑی شاہد خان،نعیم،طفیل،نوشہرہ کے راحت،حضرت خان،شمشاد،حنیف سمیت کئی دیگر بھی شامل ہیں۔لالہ کلے ، ترناب فارم اور نوشہرہ کے رہائشی کبڈی اور ایرانی کھیل زورخانہ کے بھی قومی اور صوبائی ٹیم کے کھلاڑیوں کے مکانات تباہ ہوچکے ہیں۔جبکہ رسالپور کے رہائشی جوڈوکے باصلاحیت کھلاڑی عمرا ن اورپشاورکے نواحی علاقہ ککڑگراںکی رہائشی کراٹے کی خاتون کھلاڑی آمنہ کا گھر بارش اور سیلاب کانظر ہوگیا ہے ۔جبکہ اسکے علاوہ نوشہرہ،چارسدہ اور پشاور،چترال،سوات،دیراورکوہاٹ و دیگر اضلاع میںباڈی بلڈنگ ،کیوکشن ،ووشو،بیس بال ،کرکٹ ،فٹ بال اورمارشل آرٹس سمیت مختلف کھیلوں کے سینکڑوں کھلاڑی اور کھیلوں سے وابستہ دیگر افرادشدید متاثر ہوگئے اسکے ساتھ ہی کھیلوں کے میدان بھی تباہ ہو گئے اور بعض کو جذوی نقصان پہنچا ہے ۔دوسری جانب سیلاب زدگان کی آڑ میں جب بعض افرادوگمنام اور غیر معروف تنظیمیں بھی گلی کوچوں میں چندہ جمع کرنے کے نام پر سرگرم عمل ہیں ان افراد اور اداروں کو اس نام پر اپنے مفادا ت کی تکمیل اور لوٹ مار کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں اورحکومت کی جانب دوستی کاہاتھ بڑھانا ،حکومت کاان کاہاتھ تھامنا، بے داغ نیک شہرت کے حامل افراد پر مبنی ریلیف کمیشن کے قیام کا اعلان اور صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کاحالیہ آفت سے نمٹنے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنا نہ صرف17 کروڑپاکستانیوں اورمتاثرین سیلاب کو حقیقی حوصلہ دینے کا بھی باعث ہیں۔اس ضمن میں اوقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت امریکی اداکارہ اور قوام متحدہ کی سفیر برائے خیرسگالی انجلینا جولی اوراور اقوام متحدہ کے معاون سیکرٹری جنرل اجے چھبرنے گزشتہ روزخیبر پختونخواکے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اورعالمی برادری سے متاثرہ ہونیوالے لاکھوں افراد کی مدد بحالی اور تعمیر نو کیلئے آگے آنے کامطالبہ کیا۔ سیلابوں نے پاکستان کے زرعی شعبے اور لاکھوں لوگوں کی گذراوقات کے ذرائع کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ پاکستانی قوم نے ماضی میں ہر مشکل گھڑی اور ہر آزمائش کاثابت قدمی اتحاد ویکجہتی اور قوت ایمانی سے پر عزم انداز میں مقابلہ کیاہے تو آج جب رمضان المبارک کے اس مقدس اور بابرکت مہینے میں دو کروڑ پاکستانی حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہیں۔ جب لاکھوں مائیں بہنیں بیٹیاں بچے بوڑھے اور جوان گھروں سے بے گھر ہوکر در بدر کی ٹھوکر یں کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جب لاکھوں گھرکھیت باغات تعلیمی ادارے سڑکیں، پل اور سٹیڈیمز سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں ۔جب حکمرانوں کی بے حسی انکی بد انتظامی اور کرپشن کے چرچوں کے باعث بیرونی دنیا امداد کیلئے آگے نہیں آرہی تو ایسے میں ہم کروڑوں پاکستانی اپنے شاندارماضی کی روایات زندہ کرنے میں کیوں بخل سے کام لے رہے ہیں۔ ہماری تاریخ اور ہمارا ماضی ہمیں پکار پکار کر یہ یاد دہانی کروارہاہے کہ متاثرین سیلاب کو تھامنے اور انہیں امید کاپیغام دلانے کیلئے ہم ہی کو آگے بڑھنا ہوگا۔ بیرونی امداد آتی ہے تو ا سکاخیرمقدم کیا جاناچاہیے لیکن ہمیں اپنے لٹے پٹے بے آسرا او رمفلوک الحال اہل وطن کو مصیبت کے ان لمحات سے نکالنے کیلئے ایک قوم بن کر خود آگے بڑھناہوگا۔حکمرانوں کی نااہلی اور بیرونی دنیا کی بداعتمادی کے باوجود ہم نے ان بے کسوں کاہاتھ تھامنا ہوگا کیونکہ یہ متاثرین ہم ہی میں سے ہیں۔ ہم ہی نے ان کادست وبازو بن کر ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے ۔ آزمائش اور مشکلات ہرقوم پر آتی ہیں۔ قوموں کی برادری میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں اور وہی قومیں سرفخرسے بلند کرکے جینے کاحق رکھتی ہیں جو آزمائش کی گھڑیوں میں حوصلہ نہیں ہارتیں ،جو قومیں نامساعد حالات میں اتحاد ویکجہتی اور اخوت ومحبت کامظاہرہ کرنے کے فن سے آشنا ہوتی ہیں دنیا میں سرخروئی ان ہی اقوام کامقدر ہوتی ہے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے رمضان المبارک اور ہماری تاریخ کاہمارے نام یہی پیغام ہے۔حالیہ سیلاب سے تباہی کے بعد جہاں سیاسی شخصیات متاثرہ علاقوں کا دورے کرکے لوگوں کو امداد دینے پر اپنی سیاست چمکارہے ہیںلیکن متاثرہ کھلاڑیوںکی دادرسی اور ان کی بحالی کیلئے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اور بین الاقوامی کھیلوں کے فیڈریشنزسمیت پاکستان سپورٹس بورڈ ،پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن مختلف فیڈریشنزمتعلقہ صوبائی ایسوسی ایشنز سے ملکر مختلف علاقوں میں جاتے۔اگر کھیلوں کے کرتادھرتانے اس مشکل وقت میںیکجہتی اور بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے تو انکے اس اقدام سے ملک میں کھیلوں کے فروغ ملتا۔اب بھی وقت ہے کہ اگر کھیل اور کھلاڑیوں کی بے لوث خدمت کی جائے توانکے اعتمادکی ترجمانی کرتے ہوئے کھیلو سے وابستہ افراد کے نقصانات کابروقت ازالہ کرنے کیساتھ ساتھ قوملک میں کھیلوں کا مستقبل کو بھی تباہی سے بچایاجاسکتاہے ۔

No comments: